- ORIENTAL COLLEGE MAGAZINE, Vol # 89, Issue # 1
- معنیِ واحد اور معنیِ اضافی کی کش مکش نذیر احمد کے توبة النصوح کا مطالعہ
معنیِ واحد اور معنیِ اضافی کی کش مکش نذیر احمد کے توبة النصوح کا مطالعہ
- Nasir Abbas Nayyer/
- March 31, 2014
A STUDY OF NAZIR AHMAD'S TAUBATANNASUH
Keywords
This article aims at detailed analysis of Nazir Ahmad's most influential novel, i.e., Taubatanasuh (1868) in colonial perspective. Nazir Ahmad's first three novels ( Miratularoos, Binatun'ash and Taubatannasuh) were written in response to call for prize literature made by Allahabad Government in 1868. The purpose of this call was to motivate native writers to produce some useful course books in vernacular languages of North India. Why Taubatannasuh got first prize can best be understood, if the conditions and standards set by Sir William Muir for prize winning literature be kept in mind. The story, narration, characters and style of the said novel have been interpreted in the context of colonial situation of 19th century. Kalim, the central character of the novel, condemned by his father and novelist alike for his defiance, represents a free spirit and insists upon adult man's individuality. He is the strong voice of the modern man, that is being incessantly suppressed by authority, whether paternal or of state. The most interesting point is that Kalim's modern attitude seems to have been inspired from his own elite culture, not from western thought as popularly propagated.
حواشی وحوالے
(۱) لارڈ ڈلہوزی کے زمانے میں ہندوستانی نظام ِ تعلیم کی تنظیم ِنو کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی۔بورڈ آف کنٹرول کے صدر سر چارلس ووڈ نے بہ طور سربراہ کمیٹی سفارشات تیار کیں۔ اسے ووڈ مراسلے کا نام بھی دیا جاتا ہے۔اگلی کئی دہائیوں تک برصغیر کا تعلیمی نظام انھی خطوط کے تحت کام کرتا رہا جنھیں ووڈ نے وضع کیا تھا۔ اس مراسلے میں ایک طرف یونیورسٹیوں کے قیام اور دوسری طرف پورے ملک میں مناسب پرائمری تعلیم کے نظام کے قیام پر زور دیا گیا۔یہ بھی کہا گیا کہ مشرقی فنون کے مقابلے میں یورپ کے آرٹس ، سائنس اور فلسفے کو فروغ دیاجائے تاکہ کمپنی کے لیے قابل اعتماد اور ذمہ دار اشخاص تیار کیے جاسکیں۔انگریزی تعلیم کی مخالفت نہیں کی گئی تھی ،مگر ساتھ ہی ورنیکلر تعلیم کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔تعلیم میں مذہبی غیر جانب داری برتنے کی سفارش بھی کی گئی ۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
( آر ۔میکو ناشی، The Desirability of a Definite Recognition of the Religious Element in Government Education in India مشمولہ Asiatic Quarterly Review، سیریز ۳، جلد دس، نمبر ۱۹۔۲۰، جولائی تا اکتوبر ۱۹۰۰،ص ۲۲۸)
(۲) این جیا پلان،History of Education in India، (نیو دہلی،اٹلانٹک پبلشرزااینڈ ڈسٹری بیوٹر، ۲۰۰۵)، ص ۳۶
(۳) وینا نریگل ، Language politics, elites, and the public sphere،(پرماننٹ بلیک،نئی دہلی، ۲۰۰۱)ص ۲۰۱۔ ۲۰۲
(۴) منذر احمد، ڈپٹی نذیراحمد کی کہانی، ان کی زبانی، مشمولہ ڈپٹی نذیر احمد: احوال و آثار(مرتبہ محمد اکرام چغتائی)، (پاکستان رائیٹرز کو آپریٹو سوسائٹی ، لاہور، ۲۰۱۳)،ص ۴۱
(۵) افتخار احمد صدیقی، مولوی نذیر احمد دہلوی : احوال و آثار( مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۱)، ص۳۲۸
(۶) تفصیل کے لیے دیکھیے: (سی ایم نعیم، Urdu Texts and Contexts،(پرمانننٹ بلیک ، دہلی ، ۲۰۰۴)ص ۱۲۲۔ ۱۲۳۔)
(۷) نذیر احمد نے اپنی سوانحی تحریر میں دہلی کالج کے اثرات کے ضمن میں لکھا ہے کہ ”․․․معلومات کی وسعت،رائے کی آزادی ، ٹالریشن(Toleration) تعدیل، گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی ،اجتہاد علیٰ بصیرت، یہ چیزیں جو تعلیم کے عمدہ نتائج ہیں، اور جو حقیقت میں شرط زندگی ہیں ان کو میں نے کالج ہی سے سیکھا اور حاصل کیا۔“
(منذر احمد، ”ڈپٹی نذیراحمد کی کہانی، ان کی زبانی“، مشمولہ ڈپٹی نذیر احمد: احوال و آثار، متذکرہ بالا،ص۲۶)
(۸) ایضاً
(۹) عظیم الشان صدیقی، ”نذیر احمد کی ناول نگاری“، مشمولہ ڈپٹی نذیر احمد: احوال و آثار، متذکرہ بالا،ص ۳۷۲
(۱۰) ایضا، ص ۴۲۶
(۱۱) ولیم میور کے اصل الفاظ یہ ہیں:
In fact, it is only in a country under Christian influence , like those which happily are seen and felt in India , that the idea of such a book would present itself to the Moslem mind. And the fact cannot but be regarded as an encourging token of effect of our religious teaching in India.
(دیباچہ ، Repentance of Nasuh (ایم کے سیمپسن لو،مارسٹن اینڈ کمپنی لمیٹڈ، لندن، ۱۸۸۴) ص X۔ توبة النصوح کے اس ترجمے کو سی ۔ایم،نعیم نے مرتب کیا ہے ،جسے پرماننٹ بلیک دہلی نے ۲۰۰۲ ء میں شایع کیا ۔ اس میں سی۔ ایم ۔نعیم نے نذیر احمد ،ان کی ادبی خدمات اور خاص طور پر توبة النصوح پر تفصیلی مضمون بھی شامل کیا ہے۔ )
(۱۲) ڈبلیو۔ڈبلیو۔ہنٹر، The Indian Musalmans(روپا کمپنی ،نئی دہلی، ۲۰۰۲)، ص ۱۳۶
(۱۳) ڈپٹی نذیر احمد، توبة النصوح ، مرتبہ افتخار احمد صدیقی (مجلس ترقی ادب ،لاہور،۱۹۹۴،طبع دوم)،ص۲۲۱۔۲۱۲
(۱۴) ولیم میور کے اپنے الفاظ ملاحظہ کیجیی:
The tale is not the mere imitation of an English work, though it be the genuine product of English ideas.
(دیباچہ ، Repentance of Nasuh ، متذکرہ بالا، ص X)
(۱۵) ایم کیمپسن کے اصل الفاظ درج ذیل ہیں:
First, because I am sure that the kindness with which the condition and progress of our Indian fellow- subjects are regarded by Eglishmen will be enhanced in the mind of those who care to persue the version.
(ایضاً)
(۱۶) ڈپٹی نذیر احمد، توبة النصوح، متذکرہ بالا، ص ۸۸
(۱۷) ایضاً، ص ۲۶۸
(۱۸) رولاں بارت، Image Music Text(مترجم سٹیفن ہیتھ)(فونٹانا پریس،لندن،۱۹۷۷)ص ۹۰۔
(۱۹) ژرارژینث Paratextکے آگے دو حصے کرتا ہے۔ ایک کوEpitext اور دوسرے کوPeritext کا نام دیتا ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ژرار ژینث، Paratext: Threshold of Interpretation (یونیورسٹی آف کیمبرج، ۱۹۹۷)ص ۱۰تا ۲۰۔)
(۲۰) افتخار احمد صدیقی، مولوی نذیر احمد دہلوی : احوال و آثار،متذکرہ بالا، ص ۳۲۲
(۲۱) ڈیوڈ لاج،The Modes of Modern Writing(ایڈورڈ آرنلڈ،لندن،۱۹۷۷)، ص ۲۵
(۲۲) برگٹ نیومان ،اور انسگر ننگ،An Introduction to the Study of Narrative Fiction، (کلیٹ لرنن اور وائزن ، سٹٹ گارٹ، جرمنی،۲۰۰۸)۔، ص ۸
(۲۳) جارج لوکاچ، The Theory of the Novel(مرلن پریس، لندن، ۱۹۷۸) ،ص۷۰
(۲۴) فردوس اعظم،The Colonial Rise of the Novel(روٹلیج،لندن، ۱۹۹۳)، ص ۱۰
(۲۵)آصف فرخی،عالم ِ ایجاد، (شہر زاد ، کراچی ،۲۰۰۴ )،ص ۲۶
(۲۶)ڈپٹی نذیر احمد، توبة النصوح، متذکرہ بالا، ص ۹۲
(۲۷) سوسن سونٹاگ،Illness as Metaphor،(فرار،سٹراس اینڈجیروکس، نیویارک،۱۹۷۷)، ص۶
(۲۸)ڈپٹی نذیر احمد، توبة النصوح، متذکرہ بالا، ۱۰۳تا ۱۰۵
(۲۹) سب سے پہلے فرائیڈ نے ۱۹۱۳ میں اپنے مقالے ”پریوں کی کہانیوں سے ماخوذ مواد کا خوابوں میں ظہور“ میں واضح کیا کہ خوابوں میں وہ عناصر اور صورت حالات ظاہر ہوتے ہیں جو پریوں کی کہانیوں سے اخذ شدہ ہوتے ہیں۔ بعد ازاں فرائیڈ کے شاگرد سی جی ژونگ نے اساطیر ی عناصر کا خوابوں سے تعلق دریافت کیا اور اسی کی بنیاد پر اجتماعی لاشعور کا نظریہ پیش کیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
(سگمنڈ فرائیڈ، On Creativity and the Unconscious، (مرتبہ بنجامن نیلسن)(ہارپر اینڈ رو پبلشر، نیویارک و لندن، ۱۹۵۸)ص ۷۶تا ۸۳)
(۳۰)ڈپٹی نذیر احمد، توبة النصوح، متذکرہ بالا، ص ۲۶۹
(۳۱) ایضاً، ص ۳۳۰
(۳۲) سی ایم نعیم، Urdu Texts and Contexts،متذکرہ بالا،ص ۱۴۶
(۳۳) ڈینیل ڈیفو، The Family Instructorجلد اول(ایچ ووڈ فال،ڈبلیو۔سٹراہن،جی۔کائیتھ،لندن، ۱۷۶۶، سولھوں ایڈیشن)، ص ۹۱۔۹۲
(۳۴) بہ حوالہ ایلس کریگ، The Suppressed Books(دی ورلڈ پبلی کیشنز کمپنی، اوہیو، ۱۹۶۳)، ص۴۴
(۳۵) ایضاً، ص ۴۴
(۳۶) گارساں دتاسی، مقالات گارساں دتاسی، جلد دوم(انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، ۱۹۷۵)، ص۶۵
(۳۷) ایضاً، ص ۶۸۔۶۹
(۳۸) ایف ۔آر۔اینکرسمٹ،Histriography and Postmodernism ،مشمولہ ، The Postmodern History Reader(مرتبہ کائتھ جنکنس)،(روٹلیج، نیو یارک، ۱۹۹۷)ص ۲۸۴۔۲۸۵
(۳۹) فردوس اعظم ، The Colonial Rise of the Novel ، متذکرہ بالا، ص ۱۰
(۴۰) ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ ، Nazir Ahmad and the early Urdu Novel: Some Observations،مشمولہ Deputy Nazir Ahmad, A biographical and critical appreciation، (مرتبہ ایم اکرام چغتائی )(پاکستان رائٹرز کو آپریٹو سوسائٹی، لاہور، ۲۰۱۳)،ص ۱۰۱
(۴۱) ڈپٹی نذیر احمد، توبة النصوح، متذکرہ بالا، ص ۳۳۴۔۳۳۵
(۴۲) گارساں دتاسی، مقالات گارساں دتاسی، جلد دوم،متذکرہ بالا، ص ۷۵
(۴۳) ٹیرنس ہاکس، Metaphor ،میتھوئن، لندن و نیویارک، ۱۹۷۲،ص ۵۸
Statistics
Author(s):
Nasir Abbas Nayyer
Professor of UrduInstitute of Urdu Language & Literature
Pakistan
- nanayyar@gmail.com
- website
Details:
| Type: | Article |
| Volume: | 89 |
| Issue: | 1 |
| Language: | Urdu |
| Id: | 635a00d721894 |
| Pages | 95 - 158 |
| Published | March 31, 2014 |
Statistics
|
|---|
Copyrights
| Creative Commens International License |
|---|

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.